عالمی یوم ماحولیات 2025
ہر سال 5 جون کو دنیا بھر میں عالمی یوم ماحولیات (World Environment Day) منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی قیادت میں 1973 سے ہر سال ایک خاص موضوع کے تحت منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا اور حکومتوں، اداروں، اور افراد کو عملی اقدامات کی جانب راغب کرناہے۔ سال2025کے لیے عالمی یومِ ماحولیات کا مرکزی موضوع ”عالمی سطح پرپلاسٹک کی آلودگی کا خاتمہ“ منتخب کیا گیا ہے۔ اس سال کی میزبانی کوریا کر رہا ہے، جو ماحولیاتی ٹیکنالوجی اور پائیدار ترقی کے شعبے میں نمایاں کارکردگی رکھتا ہے۔
پلاسٹک کی آلودگی آج دنیا کے بڑے ماحولیاتی چیلنجز میں سے ایک ہے، جو صرف زمین ہی کو نہیں بلکہ سمندروں، فضااور انسانی صحت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 400 ملین ٹن سے زائد پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے، جس کا ایک بڑا حصہ زمین پر گلنے سڑنے کے بغیر طویل عرصے تک موجود رہتا ہے۔ہر سال لاکھوں سمندری مخلوقات پلاسٹک کھا کر مر جاتی ہیں۔ مچھلیوں اور پرندوں کے جسموں میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات پائے جا چکے ہیں، جو بالآخر انسانی غذا میں شامل ہو جاتے ہیں۔مائیکرو پلاسٹک پانی، خوراک اور ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔پلاسٹک کی وجہ سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے، نکاسی آب کے نظام بند ہوتے ہیں اور ماحولیاتی توازن بگڑ جاتا ہے۔
پلاسٹک کی آلودگی کا مسئلہ ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے جس کے حل کے لیے مربوط اور فعال کوششوں کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ورلڈ وائلڈ لائف اور آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو کیسل میں ہونے والی ایک ریسرچ میں اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس تحقیق کے مطابق، ہر آدمی ہفتے میں تقریباً پانچ گرام پلاسٹک نگل جاتا ہے جو کہ ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ اس طرح یہ مقدار ایک مہینے میں 21 گرام اور ایک سال میں ڈھائی سو گرام تک پہنچ جاتی ہے۔پاکستان میں ہونے والی ایک ریسرچ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں ایک گرام ریت میں مائیکرو پلاسٹک کے 300 سے زائد ذرات پائے گئے ہیں۔ یہ تعداد آبی حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی خطرے کی علامت ہے۔کراچی میں یومیہ 14 ہزار ٹن سے زائد کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف 8 ہزار ٹن کچرا ہی صحیح طریقے سے ٹھکانے لگایا جا رہا ہے۔ باقی پانچ سے چھ ہزار ٹن کچرا شہر کے ندی نالوں میں یا پھر کھلے مقامات پر پڑا رہتا ہے۔ ندی نالوں کے ذریعے سمندر میں پہنچنے والے کچرے میں شامل پلاسٹک بالآخر مچھلیوں کی غذا بن جاتا ہے۔ سمندر میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں کی خوراک بننے کے بعد فوڈ چین کے ذریعے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ ان کے مطابق، پلاسٹک کے ٹکڑوں سے کیڑے مار ادویات اور زہریلی جڑی بوٹیاں چپکی رہ جاتی ہیں جو کینسر جیسے موذی امراض کا باعث بنتا ہے۔
پلاسٹک میں شکست و ریخت نہیں ہوتی اور اپنی اصل حالت میں بحال رہتا ہے، جب کہ ڈسپوزایبل پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آ گیا ہے۔جو لوگوں کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں آٹھ ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں پلاسٹک سے وابستہ صنعت 15 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور کراچی کے تمام ساحل پر پائے جانے والے کچرے میں پلاسٹک کی مقدار پچاس فیصد بتائی جاتی ہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ گوادر، جیوانی، اور بلوچستان کے دیگر چھوٹے ساحلی مقامات پر بھی پلاسٹک کی آلودگی سے مبرا نظر نہیں آتے۔
عالمی یوم ماحولیات ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا ماحول ہمارا سرمایہ ہے۔ ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو پائیدار اور مؤثر ہوں۔یہ دن صرف تقریبات تک محدود نہ ہو، بلکہ ایک طرزِ فکر اور طرزِ عمل میں تبدیلی کا آغاز بنے۔اگر ہم زمین کا خیال رکھیں گے، تو زمین ہمارا خیال رکھے گی۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ تعلیمی اداروں، میڈیا، اور مذہبی و سماجی پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیاجائے کہ پلاسٹک تھیلے کے بجائے کپڑے یا کاغذ کے تھیلے استعمال کریں،پلاسٹک کی بوتلوں اور برتنوں کا استعمال کم کریں،ری سائیکلنگ کو فروغ دیں،پودے لگائیں اور صفائی مہمات کا حصہ بنیں کیونکہ زمین ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔آئیے آج یہ عہد کریں کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی سے لے کر ہر بڑے کام تک اس بات کو ذہن نشین رکھیں گے کہ ماحول ایک امانت ہے جسے ہمُ نے اپنی آئندہ نسلوں تک بحفاظت پہنچانا ہے۔
Daily Program
